کیا کھویا ، کیا پایا

 


رات کو سب نو ساڑھے نو بجے تک سو جایا کرتے تھے ، رات دی

 تک جاگنے


کو نحوست تصور کیا جاتا تھا ، صبح آذان کی آواز کانوں میں گونجتی تھی اور


اُس کے بعد گھر یا ہمسایوں کے مرغے أذان دیا کرتے تھے ، گھر میں درخت


موجود ہوتا تھا اور صبح صبح چڑیوں کی آواز کانوں کو سنائی دیتی تھی ۔


گھر کے مرد نماز پڑھنے چلے جاتے تھے اور یوں دن کا آغاز بہت جلدی ہو 


جاتا تھا ۔


دوپہر میں اکثر گھروں میں روٹی بنائی جاتی تھی اور ساتھ اناردانہ ، پودینہ ، ٹماٹر


اور پیاز کی چٹنی بنائی جاتی تھی  ، اُس کے بعد ظہر کا اہتمام کیا جاتا تھا اور 


پھر قیلولہ کیا جاتا تھا ، گھر میں دادا دادی کے وجود کو رحمت سمجھا جاتا تھا 


اور اُن کا کہا ہوا حرفِ آخر ہوتا تھا ، محلے داروں کے دُکھ سُکھ سانجھے ہوتے


تھے اور کسی بارات یا فوتگی پہ اتحاد کا جذبہ دیکھنے کے قابل ہوتا تھا ۔


نا کوئی بیرا ہوتا تھا اور نا ہی شادی ہال ، محلے کے تمام لوگ مل کر شادی


کی ساری تیاریاں کرتے تھے اور فوتگی پہ ہمسائے بھی کئی کئی دن چولہا نہیں


جلاتے تھے ۔


پھر دیواریں اونچی ہونا شروع ہوئیں ، درخت ختم ہوئے ، پرندے اڑ گئے ،


مرغ پولٹری فارمز میں چلے گئے اور دیواریں اتنی اونچی ہو گئیں کہ مسجد کے 


لاؤڈ سپیکر کی آواز بھی کم آنے لگی ، ایک وقت میں کئی کھانے کھانے کی ٹیبل


کی زینت بننے لگے ، برکت ختم ہو گئی اور ایک گھر میں رہتے لوگ بھی ایک


دوسرے سے انجانے ہو گئے ، پرائیویسی کے نام پر علیحدہ علیحدہ رومز بن گئے


اور گھر میں رہتے ہوئے رابطے موبائلز پر ہونے لگے ، شادی کالز اور مارکیز میں 


ہونے لگیں اور محلے میں فوتگی پر منہ دکھانے کی رسم  چل نکلی ۔


تیس سال کے اس سفر میں ہم نے سب کچھ کھو دیا ، پایا کچھ نہیں ۔

Comments

Popular posts from this blog

Old man marries his daughter-in-law; scripted video goes viral

انتہائی مختصر مگر بے حد طاقتور یَارَبَّنَا رات سوتے وقت 7 بار پڑھنے پر کیا کچھ ملتا ہے ؟ قیمتی تحفہ لے لیں

سورت الضحیٰ کا طاقتور وظیفہ