”صبح اٹھتے ہی سن لو ہزاروں فرشتے رزق لیکر آجا ئیں گے“
ذکرِ الٰہی انوار کی کنجی ہے، بصیرت کا آغاز ہے اور جمال فطرت کا اقرار ہے۔ یہ حصول علم کا جال ہے۔ یہ تماشہ گاہ ہستی کی جلوہ آرائیوں اور حسن آفرینیوں کا اقرار ہے۔ ذاکر کے ذکر میں زاہد کے فکر میں خالق ِ آفاق کی جھلک نظر آتی ہے۔ ذکر الٰہی دراصل خالق حقیقی سے رابطے کی ایک شکل ہے۔امام بغوی ؒ (شرح السنہ) میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
”اللہ کے نبی موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کیا کہ اے میرے رب مجھ کو کوئی کلمہ تعلیم فرما، جس کے ذریعے مَیں ترا ذکر کروں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے موسیٰلا الہ الا اللہ کہا کرو۔ انہوں نے عرض کیا کہ اے میرے رب! یہی کلمہ تو تیرے سارے ہی بندے کہتے ہیں،مَیں تو وہ کلمہ چاہتا ہوں جو آپ خصوصیت سے مجھے ہی بتائیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:کہ اے موسی علیہ السلام! اگر ساتوں آسمان اور میرے سوا وہ سب کائنات جس سے زمین کی آبادی ہے اور ساتوں زمینیں ایک پلڑے میں رکھی جائیں اورلا الہ الا اللہ دوسرے پلڑے میں،لا الہ الا اللہ کا وزن ان سب سے زیادہ ہو گا“۔

Comments
Post a Comment