”ابھی سن لوابھی گھر میں رزق آجائے گا“
ذکرِ الٰہی انوار کی کنجی ہے، بصیرت کا آغاز ہے اور جمال فطرت کا اقرار ہے۔ یہ حصول علم کا جال ہے۔ یہ تماشہ گاہ ہستی کی جلوہ آرائیوں اور حسن آفرینیوں کا اقرار ہے۔ ذاکر کے ذکر میں زاہد کے فکر میں خالق ِ آفاق کی جھلک نظر آتی ہے۔ ذکر الٰہی دراصل خالق حقیقی سے رابطے کی ایک شکل ہے۔امام بغوی ؒ (شرح السنہ) میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
”اللہ کے نبی موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کیا کہ اے میرے رب مجھ کو کوئی کلمہ تعلیم فرما، جس کے ذریعے مَیں ترا ذکر کروں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے موسیٰلا الہ الا اللہ کہا کرو۔ انہوں نے عرض کیا کہ اے میرے رب! یہی کلمہ تو تیرے سارے ہی بندے کہتے ہیں،مَیں تو وہ کلمہ چاہتا ہوں جو آپ خصوصیت سے مجھے ہی بتائیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:کہ اے موسی علیہ السلام! اگر ساتوں آسمان اور میرے سوا وہ سب کائنات جس سے زمین کی آبادی ہے اور ساتوں زمینیں ایک پلڑے میں رکھی جائیں اورلا الہ الا اللہ دوسرے پلڑے میں،لا الہ الا اللہ کا وزن ان سب سے زیادہ ہو گا“۔
دور حاضر کی بے سکونی اور ذکر الٰہی: دورِ حاضر میں بے سکونی کی کیفیت ذکر الٰہی سے بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ اہل مغرب کے ہاں خود کشیاں روحانیت سے فرار کی وجہ سے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں بھی بے سکونی یاد الٰہی سے غفلت کی و جہ سے ہے۔ نت نئی جسمانی اور نفسیاتی بیماریاں یادِ الٰہی سے غفلت کی وجہ سے ہیں۔ بلا شبہ ذکر الٰہی سے غفلت کی وجہ سے ہیں۔ بلاشبہ ذکر الٰہی دلوں کو سکون بخشتا ہے۔ سورہ¿ عنکبوت کی آیت45میں ارشاد ربانی ہے:”اور یقین کرو کہ اللہ کا ذکر ہر چیز سے بزرگ تر ہے“۔اللہ کے ذکر میں نماز، تلاوت ِ قرآن حکیم، دُعا اور استغفار سب شامل ہیں

Comments
Post a Comment